شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے
دل کہ ڈھونڈے ، وہیں جانے کے بہانے کب سے
کوئی دیدار کی صورت نکل آئے آقاؐ
موت بھی تاک میں بیٹھی ہے سرہانے کب سے
وہ جو بھولے تھے ترا نقشِ کفِ پا آقاؐ
ہو چکے نقش بہ دیوار نہ جانے کب سے
ہم نے دیکھا ہی نہیں عہدِ درخشاں آقاؐ
ہم تو اِدبار کے سنتے ہیں فسانے کب سے
استغاثہ یہ مری سمت سے اس قوم کا ہے
جس کی مظلومی پہ روتے ہیں زمانے کب سے
اب عزیز احسنِ مضطر کا مُداوا کچھ ہو !
غل مچا رکھا ہے اس نوحہ سرا نے کب سے
No comments:
Post a Comment