Urdu Deccan

Wednesday, August 31, 2022

مشتاق انجم

یوم پیدائش 31 اگست 1955

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے 
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے 

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف 
دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے 

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا 
چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے

سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں 
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے 

کس طرح ہوگا بیاں حال دل بیمار اب 
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے 

دور آیا ہے عجب انجمؔ یہاں ہشیار باش 
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے 

مشتاق انجم


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...