تجھ سے ہم عرض کریں اے دلِ شیدا کیا کیا
رنج سہتا ہے تجھے پالنے والا کیا کیا
تجھ کو دیکھا تو کئے میری نظر نے سجدے
یوں تو آنکھوں میں بسے تھے رُخِ زیبا کیاکیا
سرمئی شام سیہ رات گھنیرے بادل
ہم نے پایا ہے تری زلف کا صدقہ کیا کیا
کس کو معلوم تھا آغازِ محبت میں یہ راز
قہر ڈھائے گا محبت کا نتیجہ کیا کیا
کبھی محفل کبھی خلوت کبھی بستی کبھی دشت
خاک چھنواتا ہے وحشت کا تقاضا کیا کیا
کبھی آنکھوں سے لہو ٹپکا کبھی تلوؤں سے
گل کھلاتی رہی پھولوں کی تمنا کیا گیا
پیاس کو تیری سخاوت کا بھرم رکھنا تھا
ورنہ آنکھوں میں چھپے تھے مری دریا کیا کیا
ہوش آیا تو یہ معلوم ہوا اے کوثر
عشق انساں کو بناتا ہے تماشا کیا کیا
No comments:
Post a Comment