یوم پیدائش 27 اگست 1966
عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی
مرا وجود ہے پرچھائیوں سے آگے بھی
کسی کا حسن فریب نشاط دیتا ہے
نگار وقت کی انگڑائیوں سے آگے بھی
چلا ہے تلخ حقائق کا کارواں جیسے
مرے یقین کی بینائیوں سے آگے بھی
جہاں وجود بھی خود کو سمیٹ لیتا ہے
وہ اک مقام ہے تنہائیوں سے آگے بھی
نہ جانے کیوں مجھے احساس یہ ستاتا ہے
کہ کوئی اور ہے پرچھائیوں سے آگے بھی
کوئی سفر میں ہے آصفؔ مرے علاوہ بھی
مرے وجود کی سچائیوں سے آگے بھی
سید آصف دسنوی
No comments:
Post a Comment