عکسِ امید نگاہوں میں اتر تو آیا
صحنِ ظلمات میں اک چاند نظر تو آیا
فکر کی چھاؤں میں رہ رو کو ٹھہرنے کے لیے
خیر سے راہوں میں اک ایسا شجر تو آیا
بہہ گیا سیلِ حوادث میں وجود اپنا مگر
بعد سیلاب ستاروں کا نگر تو آیا
دشمنوں کو بھی گلے ہنس کے لگا لیتا ہے
لے کے پیغامِ وفا ایسا بشر تو آیا
آخری وقت میں بیمار کی پرشس کے لیے
ایک پل کو ہی سہی وہ مرے گھر تو آیا
سنگ ساروں میں وہ آئینہ بنا بیٹھا ہے
آئینہ داری کا بے باک ہنر تو آیا
حوصلہ ہنس کے بڑھاتا ہے جہادِ غم میں
ایسا اک شخص مقدر سے نظر تو آیا
سن کے حالاتِ زبوں وہ بھی تڑپ اٹھا ہے
دلِ ناداں کو تڑپنے کا ہنر تو آیا
مقتلِ عشق سے ناکام نہ لوٹا عاقل
زندگانی میں مری کام یہ سر تو آیا
No comments:
Post a Comment