ترے خیال کو لفظ و بیاں بناتے ہوئے
اٹھے سحاب ہوا پر دھواں بناتے ہوئے
ہر ایک غنچۂ پژمردہ کھل اٹھا دل کا
بہار آئی چمن کو جواں بناتے ہوئے
سبھی ہیں لوٹ چکے اپنے آشیانوں کو
سروں پہ شام ہوئی آشیاں بناتے ہوئے
اٹھی ہے موج حوادث مرے گلستاں میں
چلی ہوائیں نشاں پر نشاں بناتے ہوئے
سمندروں کا بھی یہ سینہ چیر دیتی ہے
خیال آیا مجھے کشتیاں بناتے ہوئے
عطا انہی کو ملی بحر و بر میں فتح مبیں
جو پانیوں میں چلے بادباں بناتے ہوئے
No comments:
Post a Comment