شریر موجوں کا مانا کہ بول بالا ہے
چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنےوالا ہے
نہ جانے کتنے غریبوں کا خون ہے اس میں
امیرِ شہر کے منہ میں جو تر نوالا ہے
دیا بجھانے میں سانسیں ہوا کی پھول گئیں
یہ کس کے ہاتھوں کے فانوس نے سنبھالا ہے
بنا کے جہدِ مسلسل کو عزم کی تلوار
بھنور سے میں نے سفینے کو یوں سنبھالا ہے۔
بوقتِ شام موبائل پہ یہ کہا اس نے
سحر تلک یہاں طوفان آنے والا ہے
ادب کے قصر کا روشن چراغ ہے ہمدمؔ
بڑے سلیقے سے قیصر نے جس کو ڈھالا ہے
No comments:
Post a Comment