ان کے سینوں میں جو ڈر رب کا سمایا ہوتا
بدعت و شرک سے دامن کو بچایا ہوتا
مل ہی جاتا مجھے کچھ لطف و سکوں اے دنیا
تیرے قدموں میں اگر سر نہ جھکایا ہوتا
پھر اترتی ہی نہیں سر سے ردائیں ان کی
شرم کا چہرے پہ غازہ جو لگایا ہوتا
اے خدا میں ہوں طلب گار تری رحمت کی
میں نے ایمان بھی اسلاف سا پایا ہوتا
آفریں بٹتے نہ فرقوں میں کبھی بھی ہم لوگ
ہم نے قرآں کو جو سینے سے لگایا ہوتا
No comments:
Post a Comment