یوم وفات 03 سپتمبر 1999
کچھ اس طرح وہ نگاہیں چرائے جاتے ہیں
کہ اور بھی مرے نزدیک آئے جاتے ہیں
اس التفات گریزاں کو نام کیا دیجے
جواب دیتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
نگاہ لطف سے دیکھو نہ اہل دل کی طرف
دلوں کے راز زبانوں پہ آئے جاتے ہیں
وہ جن سے ترک تعلق کو اک زمانہ ہوا
نہ جانے آج وہ کیوں یاد آئے جاتے ہیں
تمہاری بزم کی کچھ اور بات ہے ورنہ
ہم ایسے لوگ کہیں بن بلائے جاتے ہیں
یہ دل کے زخم بھی کتنے عجیب ہیں اے شمسؔ
بہار ہو کہ خزاں مسکرائے جاتے ہیں
شمس زبیری
No comments:
Post a Comment