انجان راستوں پہ بھی چلنا پڑا مجھے
نا چاہتے ہوئے بھی بدلنا پڑا مجھے
دل تو نہیں تھا پھر بھی نزاکت تھی وقت کی
موجِ بلا کے ساتھ اچھلنا پڑا مجھے
ہاں خون کھولتا تھا مگر پھر بھی چپ رہا
اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا مجھے
باہر رواں ہے موت کا سیلاب تھا پتہ
بچوں کی بھوک دیکھ نکلنا پڑا مجھے
کچھ اس طرح سے اس نے محبت سے بات کی
انکار کرتے کرتے پگھلنا پڑا مجھے
جو دل میں تھا شکیل وہ لب پر بھی آگیا
رازِ وصالِ یار اگلنا پڑا مجھے
No comments:
Post a Comment