رہ حیات کو آسان کچھ کیا جائے
چلو کہ جینے کا سامان کچھ کیا جائے
دکھائیں آئنہ تنقید کرنے والوں کو
ضروری ہے کہ ہشیمان کچھ کیا جائے
فرشتہ بننے کی تلقین ابھی ہے بے معنی
ہر آدمی کو تو انسان کچھ کیا جائے
لہو بھی دے کے وفادار ہم نہ بن پائے
کسی پہ کیسے اب احسان کچھ کیا جائے
نہ کوئی چاہ, نہ خواہش نہ ولولہ زرتاب
یہ دل ہوا بڑا ویران کچھ کیاجائے
زرتاب غزل
No comments:
Post a Comment