یہ عجب کرشمہ کار ہے ترا طرفہ نظم بہار ہے
کہیں پھول ہے کہیں خار ہے کہیں نور ہے کہیں نار ہے
کہیں کوئی لائق سرزنش ہے تو کوئی برسر دار ہے
یہ وفا شعاروں کا کھیل ہے یہی عاشقوں کا شعار ہے
یہ تیرے خیال کی رفعتیں یہ تری نگاہ کی وسعتیں
یہ ترے شعور کی عظمتیں تیرا اوج عرش وقار ہے
یہ لحد سے کس کی صدا اٹھی ہے مآل عشق بتاں یہی
نہ سکون پا سکے جیتے جی نہ قرار زیر مزار ہے
نہ کسی سے بات بری کہی نہ کسی کی بات بری سنی
نہ کبھی کسی سے خلش رہی نہ کسی سے دل میں غبار ہے
نہ کلی کھلی ہے نہ گل ہنسے نہ ہیں بلبلوں کے یہ چہچہے
اسے فصل گل کوئی کیا کہے یہ بہار کوئی بہار ہے
نہ جہاں میں جس کا وقار ہو جسے زیست تنگ ہو عار ہو
جو مصیبتوں کا شکار ہو وہ غریب احمدؔ زار ہے
No comments:
Post a Comment