Urdu Deccan

Saturday, October 1, 2022

احمد رحمانی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1909

یہ عجب کرشمہ کار ہے ترا طرفہ نظم بہار ہے 
کہیں پھول ہے کہیں خار ہے کہیں نور ہے کہیں نار ہے 

کہیں کوئی لائق سرزنش ہے تو کوئی برسر دار ہے 
یہ وفا شعاروں کا کھیل ہے یہی عاشقوں کا شعار ہے 

یہ تیرے خیال کی رفعتیں یہ تری نگاہ کی وسعتیں 
یہ ترے شعور کی عظمتیں تیرا اوج عرش وقار ہے 

یہ لحد سے کس کی صدا اٹھی ہے مآل عشق بتاں یہی 
نہ سکون پا سکے جیتے جی نہ قرار زیر مزار ہے 

نہ کسی سے بات بری کہی نہ کسی کی بات بری سنی 
نہ کبھی کسی سے خلش رہی نہ کسی سے دل میں غبار ہے 

نہ کلی کھلی ہے نہ گل ہنسے نہ ہیں بلبلوں کے یہ چہچہے 
اسے فصل گل کوئی کیا کہے یہ بہار کوئی بہار ہے 

نہ جہاں میں جس کا وقار ہو جسے زیست تنگ ہو عار ہو 
جو مصیبتوں کا شکار ہو وہ غریب احمدؔ زار ہے 

احمد رحمانی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...