ہاتھ باندھے ہوئے سب رنگ کھڑے ہوتے ہیں
اس کی رنگین کلائی میں کڑے ہوتے ہیں
آدمی قد سے نہیں کام سے جانا جائے
چھوٹی قامت کے کئی لوگ بڑے ہوتے ہیں
کتنی اُلفت ہے انہیں مجھ سے جدھر جاتا ہوں
زخـم ہاتھـوں میں لیے پھول کھڑے ہوتے ہیں
توڑ دیتا میں غرور آپ کا دریا لیکن
اب کسی گاؤں میں سوہنی نہ گھڑے ہوتے ہیں
آج نزدیک سے دیکھی ہیں چمکتی آنکھیں
ایسے موتی کسی خنجر میں جَڑے ہوتے ہیں
ہر اُداسی کا سبب عشق ہو لازم تو نہیں
اِمتحاں اور بھی دنیا میں کڑے ہوتے ہیں
لینے آتے ہیں سبھی پاؤں کا بوسہ عرشم
جتنے پتھر مِری راہوں میں پڑے ہوتے ہیں
No comments:
Post a Comment