رکھا نہ راز راز کچھ پردۂ زرنگار نے
خود کو چھپایا تو بہت وقت کے تاجدار نے
قصہ نہیں کیا تمام تیغ ستیزہ کار نے
کاٹ کے رکھ دیا مجھے میری ہی تیز دھار نے
تند ہوا کے ہوش بھی اڑ گئے وہ تھا سانحہ
کلمہء حق کیا بلند گرتے ہوئے چنار نے
پیکر شب چراغ نے کر لیا مجھ کو بھی اسیر
یعنی شکار کر لیا خود بھی مرے شکار نے
رکھ تو سہی اے ریگ دل اسکے نشاں سنبھال کر
آتا ہے کون نصف شب مجھ کو یہاں پکارنے
شکوۂ حادثات کیا اپنے غموں کی بات کیا
آیا ہوں میں اے زندگی قرض ترا اتار نے
حکم شہنشہی ہو تو شکوہء ظلم بھی کروں
ہاتھوں کو کر دیا قلم خود مرے شاہکار نے
دست طلب میں ایک روز آ تو گیا وہ اے وقار
مجھ کو بنا دیا فقیر گوہر شاہوار نے
وقار برکاتی طاہری
No comments:
Post a Comment