شعورِ درد نہیں نالہ و فغاں بھی نہیں
فراقِ یار میں پہلی سہی مستیاں بھی نہیں
تمھاری پردہ نشینی کا کچھ بیاں بھی نہیں
کہ تم نہاں بھی نہیں ٹھیک سے عیاں بھی نہیں
سنا تھا میرے ہی دل میں چھپے ہوئے ہو تم
بہت تلاش کیا تم ملے وہاں بھی نہیں
تمھارے گرمیِ احساس کا کرشمہ ہے
سلگ رہا ہے بدن اور سائباں بھی نہیں
مری جدائی نے تم کو بنا دیا مفلس
تمھارے کان میں سونے کی بالیاں بھی نہیں
فرحان قادری
No comments:
Post a Comment