کب تک چراغ ِ ہجر اکیلے جلاؤں میں
ایسا بھی ہو کبھی کہ اسے یاد آؤں میں
احساس کے قفس سے رہا کر کے کچھ خیال
نظموں کے آسمان پہ ان کو اڑاؤں میں
باد صبا کے ہاتھ جو نامہ ملے مجھے
اک خواب بن کے اس کے شبستاں میں جاؤں میں
دیتے ہوئے چمن کو بہار و خزاں کے رنگ
موسم کی گردشوں میں کہیں کھو نہ جاؤں میں
جب ذہنی انتشار کے حاصل ہوں رت جگے
اپنے تھکے شعور کو کیسے سلاؤں میں
اک عمر میں نے یاد میں ، جس کی گزار دی
کہتا ہے آج وہ کہ اسے بھول جاؤں میں
تھکنے لگا ہوں دشت نوردی سے اب عبید
چھاؤں کہیں ذرا سی ملے ، بیٹھ جاؤں میں
No comments:
Post a Comment