اِس سے پہلے کہ خوں مِیں تر جائیں
کیوں نہ وعدوں سے ہم مُکر جائیں
اب بھی باقی ہیں کچھ وفا پیکر
ان سے بولو کہ اب سُدھر جائیں
وہ ہی ناخن بڑھائے پھرتا ہے
ہم تو کہتے ہیں زخم بھر جائیں
اب ہے سارا مدار کانٹوں پر
کہو پھولوں سے اب بکھر جائیں
کچھ اذیت ہمیں اضافی دو
عین ممکن ہے ہم سنور جائیں
مَیں جو روتا دِکھوں تو لازم ہے
آپ ہنستے ہوئے گزر جائیں
ہم کہ دنیا سے بچ گئے سیدٓ
خود سے بچنے کو اب کِدھر جائیں
سید خرم نقوی
No comments:
Post a Comment