روز دل کو مرے اک زخم نیا دیتے ہیں
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں
میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں
کوئی آواز نہیں ہوتی بھرے برتن سے
اور خالی ہوں تو ہر گام صدا دیتے ہیں
دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں
زخم دل چاند کی مانند چمکتے ہیں مرے
آپ جب بھولی ہوئی بات سنا دیتے ہیں
آپ چپ چاپ ہی آتے ہیں تصور میں مگر
میرے خوابیدہ خیالوں کو جگا دیتے ہیں
صرف اک دیوتا سمجھا ہے تمہیں میں نے مگر
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں
کچی دیوار کی مانند ہیں ہم اے گوہرؔ
ایک ٹھوکر سے جسے لوگ گرا دیتے ہیں
No comments:
Post a Comment