ہنستی رہو کہ دیپ کے تیور میں دم رہے
مجھ کہکشاں کے ساتھ ہوا کا بھرم رہے
گنتی کے چند سال مقدر میں ماں رہی
بچپن گزر چکا تھا سو خوشیوں سے تھم رہے
ہم نے تمہارے ساتھ بتائے ہیں چار دن
الحمد! زندگی کی صدا کا ردھم رہے
بیشک! کوئی کسی کا بھی نعم البدل نہیں
لیکن وہ چاند جس کی محبت میں ہم رہے
وہ تھا تو زندگی کے مقاصد تھے لیکن اب
کاشفؔ میں چاہتا ہوں یہ طوفان تھم رہے
کاشفؔ اورا
No comments:
Post a Comment