Urdu Deccan

Monday, October 24, 2022

حیات امروہوی

یوم وفات 16 اکتوبر 1946

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی 
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی 

گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب 
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی 

تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا 
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی 

جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی 
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی 

شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا 
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی 

جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور 
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی 

جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ 
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی 

زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی 

ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے 
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی 

حیات امروہوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...