زمیں پہ کوستے رہتے ہو جو شراروں کو
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤگے چاند تاروں کو
بھروسا کر لے ہتھیلی کے جگنوؤں پہ مگر
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو
نگاہیں رکھنا کہیں پر بجز نشان ہدف
سمجھتا خوب ہے وہ میرے استعاروں کو
چمن میں تیرے اگر پھول کوئی کھل نہ سکا
خزاں کے رت میں نہ اب دوش دے بہاروں کو
نہ جانے کیا ہوا منظر نہیں رہے دلکش
نظر یہ کس کی لگی دلنشیں نظاروں کو
حجاب عقل پہ ان کے پڑا ہے کیا کیجے
خدا دے عقل کہ سمجھیں وہ گل کو، خاروں کو
قدم ہے جو بھی مخالف کا ذد پہ تم ہی ہو
عزیر سمجھو اگر وقت کے اشاروں کو
No comments:
Post a Comment