کبھی وہ میری وفاؤں کو پروقار کرے
یہ اک دعا ہے جو دن رات خاکسار کرے
وہ میرے سامنے خنجر لیے کھڑا کیوں ہے
جو مارنا ہی ہے مجھ کو تو مجھ پہ وار کرے
وہ بے خبر ہے کہ اس کے لیے کوئی کتنے
پہاڑ سر کرے اور کتنے دریا پار کرے
نہیں ہے کوئی یہاں اس کو پوچھنے والا
وہ جس کو چاہے جہاں چاہے سنگ سار کرے
ہمارے عہد کا ہے ایک المیہ یہ بھی
وہی ہے لوٹنے والا جو ہوشیار کرے
اب آدمی کو فقط آدمی سے ڈر ہے شفیق
کہ آدمی کا یہاں آدمی شکار کرے
سبھاش گپتا شفیق
No comments:
Post a Comment