یہ اور بات ، کہ رہبر نہ ہم سفر پھر بھی
چنا ہے راستہ شبلی نے پر خطر پھر بھی
یہ اور بات ، زباں میں مری نہ ہو تاثیر
کلام رب کا، کرے گا مگر اثر پھر بھی
یہ اور بات ، لچک ہے ہماری فطرت میں
ملیں گے سخت اصولوں میں ہم مگر پھر بھی
یہ اور بات ، حقائق کچھ اور کہتے ہیں
حقیقتوں سے گریزاں ہے وہ نظر پھر بھی
یہ اور بات ، گھٹا جا رہا ہے دم میرا
حصار ذات سے ممکن نہیں مفر پھر بھی
یہ اور بات ، گراں تھی نہ اہل محفل پر
طویل نظم کیا ہم نے مختصر پھر بھی
یہ اور بات ، الگ ذائقے ہیں رشتوں کے
جڑا ہے شبلیؔ اخوت سے ہر بشر پھر بھی
No comments:
Post a Comment