اس کے دل میں بھی وفا ہے مجھے معلوم نہ تھا
پھول پتھر پہ کھلا ہے مجھے معلوم نہ تھا
چشمِ ساقی میں نشہ ہے مجھے معلوم نہ تھا
جام خالی بھی بھرا ہے مجھے معلوم نہ تھا
تیری بکھری ہوئی زلفوں کی مہک سے پہلے
سانس بھی بادِ صبا ہے مجھے معلوم نہ تھا
جس کو پانے کے لیے کتنی نقابیں الٹیں
دل کے پردے میں چھپا ہے مجھے معلوم نہ تھا
جو سرِ شام چراغوں کو بجھا دیتی ہے
میرے دامن کی ہوا ہے مجھے معلوم نہ تھا
مفتیِ دین کے فتوے کو نہ فتویٰ سمجھا
تیری رحمت سے بڑا ہے مجھے معلوم نہ تھا
سجدہ ریزی سے تو اچھی تھی مری لاعلمی
کوئی بت ہے کہ خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
گھپ اندھیرے میں حقیقت ہوئی روشن نیّرؔ
دل کا ہر داغ دیا ہے مجھے معلوم نہ تھا
No comments:
Post a Comment