جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں
ہم جدائی کے بھی احساس سے مر جاتے ہیں
باندھ کر رخت سفر سوچ رہی ہوں کب سے
جن کا گھر کوئی نہیں ہوتا کدھر جاتے ہیں
جن کو تاریکی میں راتوں کی منور دیکھا
صبح ہوتی ہے تو پھر جانے کدھر جاتے ہیں
جب بھی خودداری کی دیوار کو ڈھانا چاہیں
اپنے اندر کی صدا سن کے ٹھہر جاتے ہیں
راستے اس نے یوں تقسیم کئے تھے عنبرؔ
اب ادھر جانا ہے تم کو ہم ادھر جاتے ہیں
عنبر عابد
No comments:
Post a Comment