جینا محال لگتا ہے تیرا فضاؤں میں
یہ کس نے زہر گھول دیا ہے ہواؤں میں
پہلے ہی مجھ کو کرنا تھا خوابوں کا تجزیہ
تعبیر ٹاکنی تھی نظر کی رداؤں میں
اب بھی مرے وجود کا بھیگا ہوا بدن
آرام چاہتا ہے کہیں دھوپ چھاؤں میں
آنکھوں میں اضطراب لیے جاگتا رہا
میں نیند چھوڑ آیا تھا خوابیدہ گاؤں میں
مصلوب میں نہ ہوتا نظر کی صلیب پر
زنجیر ڈالنی تھی خیالوں کے پاؤں میں
یہ چلتے چلتے کیسے گزر گاہ تھم گئی
حلقہ بگوش کون تھا ٹوٹی صداؤں میں
جلال اصغر فریدی

No comments:
Post a Comment