یوم پیدائش 16 دسمبر 1956
دل بھی خوش ہو کبھی، یہ آس لیے
لوگ ہنستے ہیں دل اداس لیے
کہہ رہا ہے کٹھن ہے سچ کا مقام
زہر سقراط کا گلاس لیے
غم بھی دیتے ہیں اور ہنستے ہوئے
گفتگو میں بڑی مٹھاس لیے
تلخیئے آسماں پلا دے اُسے
دل سمندر ہے اک پیاس لیے
جب بھی پڑتی ہے چوٹ دل پہ مرے
ساز بجتے ہیں دُھن اداس لیے
دیکھ خاؔلد نہال ہے یہ چمن
پھول خوشبو ہے آس پاس لیے
No comments:
Post a Comment