Urdu Deccan

Thursday, December 1, 2022

نظیر فتح پوری

یوم پیدائش 01 دسمبر 1946

آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا 
غم کی جو شاخ سے ٹوٹا وہ کہیں کا نہ رہا 

اتنے بے رنگ اجالوں سے نظر گزری ہے 
حوصلہ آنکھ کو اب خواب حسیں کا نہ رہا 

وقت نے سارے بھروسوں کے شجر کاٹ دئے 
اب تو سایہ بھی کوئی خاک نشیں کا نہ رہا 

کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے 
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا 

اے نظیرؔ اپنی شرافت ہے اسی کی قائل 
ہاں کا پابند ہوا جب تو نہیں کا نہ رہا 

نظیر فتح پوری



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...