عجب طرح کے کئی وسوسوں نے گھیرا ہے
کچھ ایسے وقت کے ان پر بتوں نے گھیرا ہے
گئے دنوں کی صعوبت ابھی نہیں بُھولی
نئی رُتوں میں نئی صُورتوں نے گھیرا ہے
یہ روز و شب مِرے ہم وار ہو نہیں پائے
رادائے زیست کو یوں سلوٹوں نے گھیرا ہے
یہ کیا غضب ہے کہ سانسیں تو ہیں رواں میری
فصیلِ جاں کومگر کر گسوں نے گھیرا ہے
خدائے نطق عطاکر اسے حسیں لہجہ
مِرے لہو کو کڑی تلخیوں نے گھیرا ہے
عطا ہوا مِرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طورِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے
مِرے طواف کو نکلی ہیں تتلیاں ناوک
مِرے وجود کو رعنائیوں نے گھیرا ہے
No comments:
Post a Comment