جو آسمان پر ہے وہ مہتاب اور ہے
میں جس کو دیکھتا ہوں تہہِ آب اور ہے
انگڑائی میں نے دیکھی ہے اس ماہتاب کی
جو آپ جانتے ہیں وہ محراب اور ہے
ہر ساز دلنشیں ہے مگر جانِ مطربہ
تار نفس کو چھیڑے وہ مضراب اور ہے
مضمون دلفریب ہے لیکن مرے حضور
عنوانِ باب اور ہے یہ باب اور ہے
ہو کوئی دیدہ ور تو کرے کارِ امتیاز
آنسو الگ ہے دیدۂِ خوناب اور ہے
شاید نہ پیشِ لفظ ہو یہ بھی فریب کا
ظالم کے رخ پہ آج تب و تاب اور ہے
تعریف سامنے ہے برائی ہے پیٹھ پر
یعنی ہمارا حلقۂِ احباب اور ہے
دریا کے پاس فیضی نہ اس کو تلاشئے
دل جس میں ڈوبتا ہے وہ گرداب اور ہے
No comments:
Post a Comment