لوحِ محفوظ کے اشارے میں
آدمی ہے سو ہے خسارے میں
قیس سے مل چکی ہوں صحرا میں
کچھ رہا ہی نہیں بچارے میں
اُن پہ لیلیٰ کی طرح مر جائوں
اور چمک جائوں پھر ستارے میں
وہ سمندر میں لہر ہے جیسے
ایسی کیا چیز ہے تمہارے میں
یہ جو لپکا تو حشر کر دے گا
عشق آیا ہے دل شرارے میں
جھوم جائوں گی عرش کے سایے
حسن آیا ہے میرے وارے میں
آئینہ ہے وہ میرے جیسا ہے
دیکھ آئی ہوں میرے پیارے میں
یہ تخیل ہے یہ تصور ہے
دیکھتی عرش ہوں نظارے میں
جب ترا ہاتھ، ہاتھ میں پایا
زندگی مل گئی سہارے میں
نیم جاں ہوں میں ہجر میں تیرے
چیر دوں گی یہ دل بھی آرے میں
حسن کی تاب آپ ہے شہرو
عشق کی گونج اس کے نعرے میں
No comments:
Post a Comment