معلوم کہاں اس کو ہے ،کیا ہونے چلا ہے
پھل خوش ہے کہ ٹہنی سےرہاہونےچلاہے
جا کر سرِ افلاک ہی پھر رہنا پڑے گا
اے خاک نشیں گر تو خدا ہونے چلا ہے
سایا جو بڑھا دیکھا تو خوش فہم یہ سمجھا
قد اس کا بھی شاید کہ بڑا ہونے چلا ہے
جو کَل کا ہُوا حال ہے ،اے آج ! ترے ساتھ
اس سے بھی کہیں بڑھ کے بُرا ہونے چلاہے
یہ قطع تعلق بھی تو خواہش تھی تمہاری
اب تھوڑا کریں صبربھی،کیا ہونے چلا ہے
حبیب سعید
No comments:
Post a Comment