کبھی ماہ پاروں کی بھی بات کر لیں
افق کے شراروں کی بھی بات کر لیں
زمیں کی تو با تیں بہت ہو چکی ہیں
چلو اب ستاروں کی بھی بات کر لیں
اندھیرے سے گزرے بیاباں میں پہنچے
اٹھو مرغ زاروں کی بھی بات کر لیں
چلو چاند مریخ کو دیکھ آئیں
ان اجڑے دیاروں کی بھی بات کر لیں
بلندی عمارت کی کیا دیکھتے ہو
جڑوں میں شراروں کی بھی بات کر لیں
محبت شرافت کتابوں میں دیکھی
دلوں میں دراڑوں کی بھی بات کر لیں
غریبوں کی نگری میں چل کر تبسم
زرا کام گاروں کی بھی بات کر لیں
No comments:
Post a Comment