موسم گل میں بھی ہر سمت خزاں چھائی ہے
کیسے کہدوں کہ گلستاں میں بہار آئی ہے
باغباں نوچ رہا ہے یہاں کلیوں کے بدن
پھول ہیں سہمے ہوئے ہر کلی مرجھائی ہے
ظلم اور جبر کے ایوان لرز اٹھے ہیں
آہ مظلوم کی جب عرش سے ٹکرائی ہے
مار ڈالے نہ کہیں تلخ نوائی ہم کو،
ہم نے سچ بولتے رہنے کی قسم کھائی ہے
جس کو پالا تھا بڑے ناز سے وہ چھوڑ گیا
باپ نے کیسی بڑھاپے میں سزا پائی ہے
تانے اور بانے میں الجھے رہے تاعمر مگر
گتھی حالات کی ہم سے نہ سلجھ پائی ہے
صرف احساس ندامت تھا مری آنکھوں میں
رحمت حق مرے آنگن میں اتر آئی ہے
No comments:
Post a Comment