دہن دیا ہے تو شیریں زبان دے اللہ
بیان کو میرے حسنِ بیان دے اللہ
جو رہنما ہو، اندھیرے میں روشنی بخشے
مرے شعور کو ایسا تو گیان اللہ
ترے جہاں کی قدامت سے بھر گیا ہے دل
نئی زمین، نیا آسمان دے اللہ
شکاری جال بچھانے لگے ہیں جن کے لیے
تو اُن پرندوں کو اونچی اڑان دے اللہ
نہیں ہے مجھ کو گلہ اہل قصر و ایواں سے
جو بے مکاں ہیں انہیں بھی مکان دے اللہ
اندھیرا پھیلا ہے دہشت کا شہر و قریہ میں
اُگا کے امن کا سورج امان دے اللہ
جھلس رہا ہے مصائب کی دھوپ میں منظر
تو اس کے سر پہ کوئی سائبان دے اللہ
No comments:
Post a Comment