دے دیا اپنے بھی حصے کا نوالا ہم نے
کسی سائل کو مگر در سے نہ ٹالا ہم نے
جانے کب لوٹ کے آ جائے وہ جانے والا
دل کے دروازہ پہ تالا نہیں ڈالا ہم نے
زندگی اپنی اندھیروں میں گزاری لیکن
پاس رکھا نہیں مانگے کا اجالا ہم نے
دل خدا نے ہمیں درویش صفت بخشا ہے
خواہشوں کا کوئی پنچھی نہیں پالا ہم نے
ہم ہیں شرمندہ بہت مانگنے والے تجھ سے
کوئی سکہ ترے کاسے میں نہ ڈالا ہم نے
چاہنے والے ہزاروں ہیں ہمارے لیکن
تم سا دیکھا ہی نہیں چاہنے والا ہم نے
اس لیے دل نہیں لگتا ہے عبادت میں ایازؔ
کعبۂ دل سے بتوں کو نہ نکالا ہم نے
ابراہیم ایاز حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment