صلیب و دار پہ رکھا مرا سر دیکھ سکتے ہو
امیرِ شہر کے گھر سے یہ منظر دیکھ سکتے ہو
پریشانی میں رہ کر بھی نہ ماتھے پہ شکن آئے
یہ منظر ماں کے چہرے کو بھی پڑھ کر دیکھ سکتے ہو
اسے دیوانہ سمجھوں یا کہ فرزانہ جو کہتا ہے
ہتھیلی کی لکیروں میں مقدر دیکھ سکتے ہو
جو اہلِ فن ہیں آصف خاکساری ان کا شیوہ ہے
کبھی جو وقت مل جائے تو مل کر دیکھ سکتے ہو
No comments:
Post a Comment