توڑ کر دیوار نفرت پیار کا نقشہ بنا
چل پڑے جس پر زمانہ ایسا اک رستہ بنا
بارہا اہلِ دول کا لے چکا ہوں امتحاں
بھوک میں تو بھیس اپنامت فقیرانہ بنا
آدمی کی جان لینے کو ازل سے آج تک
تیر ، خنجر ، نیزہ ، بھالا جانے پھر کیا کیا بنا
کون کس کا یار ہے خود ہی پتا چل جائے گا
پہلے اپنی ذات کو تو صبر کا پتلا بنا
کب بنا کیوں کر بنا ، شمسیؔ نہ ہم سے پوچھیے
دیکھتے ہی دیکھتے یاں خون کا دریا بنا
No comments:
Post a Comment