اُس نے جب مجھ سے اجتناب کیا
ہر حقیقت کو میں نے خواب کیا
اُس نے آ کر گلے لگایا اور
میری سانسوں کو باریاب کیا
میر و غالب تلک گئی وہ مگر
شعر میرا ہی انتخاب کیا
چار لوگوں میں نام تھا لیکن
دوستوں نے مُجھے خراب کیا
خواب میں لائی اِس قدر وُسعت
سب خلاؤں کو دستیاب کیا
مُلحدو تُم سے بحث جیتوں گا
فلسفے کو جو ہم رکاب کیا
حوصلہ پست کرنے والوں کی خیر
مجھ کو الله نے کامیاب کیا
اُس نے گالی نکالی تھی میں نے
جب دلیلوں سے لاجواب کیا
کچھ نہیں گر درونِ ذات مرے
دِل نے کیوں محوِ اضطراب کیا
یار کا ادنیٰ معجزہ تحسین
دشت کو چھو لیا گلاب کیا
No comments:
Post a Comment