مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے
سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے
مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے
سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے
یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے
میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے
کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے
No comments:
Post a Comment