پھر میسر یہ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
سامنے بیٹھ کے پھر بات کبھی ہو کہ نہ ہو
آؤ ہم بوجھ دلوں کا ذرا ہلکا کر لیں
کیا خبر اشکوں کی برسات کبھی ہو کہ نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ میں آپ کا دل رکھ پاؤں
پھر سے یہ عالم جذبات کبھی ہو کہ نہ ہو
چھوڑنے والا تھا دل تیرے کرم کی امید
ڈر تھا پھر لطف اشارات کبھی ہو کہ نہ ہو
تھا ارادہ کہ کوئی بات ادھوری نہ رہے
کیا خبر فرصت لمحات کبھی ہو کہ نہ ہو
پیار کے نام پہ یہ زخم بھی ہیں مجھ کو قبول
پھر مری نذر یہ سوغات کبھی ہو کہ نہ ہو
تجھ سے ملنے کا یہ موقع ہمیں قسمت سے ملا
ایسی دلچسپ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
یہی بہتر ہے کہ ہم کر لیں قبول اپنے گناہ
خود سے اس طرح ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
اتنا بے بس تھا میں انجمؔ کہ زباں کھل نہ سکی
کیا خبر ختم سیہ رات کبھی ہو کہ نہ ہو
No comments:
Post a Comment