رئیس شہر کرایہ کے گھر میں رہتا ہے
عمارتوں کا خدا اب کھنڈر میں رہتا ہے
وہ آشنا ہے نشیب و فرازِ موسم سے
جو آدمی کہ مسلسل سفر میں رہتا ہے
ہزار تیز ہوا ہو مگر بہ فیضِ جنوں
چراغِ نقش قدم رہ گذر میں رہتا ہے
وہی دکھاتا ہے فروا کی موہنی تصویر
جو احتیاط کا عنصر بشر میں رہتا ہے
وہ آشنا ہی نہیں ہے مزاج دریا ہے
کبھی کبھی جو سفینہ بھنور میں رہتا ہے
جہاں جہاں پہ نظارے فریب دیتے ہیں
وہاں وہاں پسِ منظر نظر میں رہتا ہے
صبا کی طرح جو چلتا ہے راہ ہستی میں
وہ ہر قدم پہ جہانِ دگر میں رہتا ہے
تمام شرک ِتمنا کا سلسلہ ہے دراز
ضرورتوں کا صنم سب کے گھر میں رہتا ہے
بجھے بجھے سے نظارے ہیں ہر طرف اختر
نہ جانے کیسا دھندلکا سحر میں رہتا ہے
اختر عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment