حادثات ہوتے ہیں یوں ہی زندگانی میں
دل پھسل ہی جاتا ہے یار نو جوانی میں
بے سبب کوئی ایسے دربدر نہیں روتا
کچھ نہ کچھ حقیقت ہے دکھ بھری کہانی میں
بچ کے جا نہیں سکتا جتنی کوششیں کر لیں
موت سب کی آئے گی اس جہان فانی میں
وقت نے انہیں دیکھو کیا سے کیا بنا ڈالا
خوب نام چلتا تھا جن کا باغبانی میں
آج ان کے گھر دیکھو پسرے کتنے ماتم ہیں
کل تلک جو ہنستے تھے خوب شادمانی میں
اشک وہ سمجھتا ہے عام ایک پانی ہے
خون دل بھی شامل ہے میرے بہتے پانی میں
کیوں بچارہے ہو تم جھوٹے اپنے دامن کو
کھل کے سامنے آؤ آپ حق بیانی میں
کتنے گھر کے چولہے بھی بجھ گئے مبیں دیکھو
دن برس سا لگتا ہے آج اس گرانی میں
No comments:
Post a Comment