رکھتے تھے یہ کل تک مجھے سینے سے لگا کر
احباب جو گزرے ہیں ابھی آنکھ چرا کر
آرام وہ مخمل کے بھی بستر میں کہاں ہے
ملتا تھا سکوں ماں جو تری گود میں آ کر
اس بار جو اب شخص ہوا تخت نشیں ہے
اترے گا مری قوم پہ یہ قرض بڑھا کر
تنکا نہ کیا توڑ کے دو لخت کبھی تو
دریاوں کے رخ موڑ دیے موج میں آ کر
اندھوں کے نگر میں نہ دیا دل کا جلا تو
بہروں کی یہ بستی ہے یہاں پر نہ صدا کر
آنگن کے شجر سے بھی انہیں پیار ہے کتنا
دیکھوں گا پرندوں کو یہ اس بار اڑا کر
اشفاق جدائی بھی سلیقے سے ہو جس سے
شرمندہ نہ پھر ہونا پڑے آنکھ ملا کر
No comments:
Post a Comment