Urdu Deccan

Saturday, January 14, 2023

جعفر ساہنی

یوم پیدائش 05 جنوری 1941

دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید 
آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید 

ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی 
پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید 

ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ 
تھا ادھر اب گیا ادھر شاید 

سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر 
ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید 

پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں 
ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید 

بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی 
کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید 

درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ 
لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید 

مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو 
وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید 

روتے روتے ہنسی مری خواہش 
مل گئی اک نئی خبر شاید 

دن کا کٹنا محال ہے تو سہی 
رات ہو جائے گی بسر شاید 

آگ پانی میں جو لگاتا ہے 
وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید 

صحن دل سے خوشی نہیں گزری 
راستہ تھا وہ پر خطر شاید 

دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ 
خشک کرنے کو بال و پر شاید

جعفر ساہنی 



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...