سل گئے ہونٹ اگر آنکھ ہی نم ہو جائے
کاش جو بوجھ میرے دل پہ ہے کم ہو جائے
کوئی انداز تو جینے کا ہو انسان کے پاس
جسے راحت نہ ملے خوگرِغم ہو جائے
اس توقع پر ستم اس کے سہے جاتے ہیں
جانے کس وقت وہ مائل بہ کرم ہو جائے
سر فرازی مجھے مل جائے زمانے بھر کی
مرا سر آپؐ کی دہلیز پہ خم ہو جائے
مری تحریر ہو رنگین کہ سادہ ، کچھ ہو
کیفیت دل کی کسی طور رقم ہو جائے
نہ وہ احباب ،نہ وہ صورت حالات، نہ ہم
کیسے تسکین کا سامان بہم ہو جائے
مری فطرت کو عطا کر وہ بصیرت جس سے
دل جہاں بیس صفتِ ساغر جم ہو جائے
شاعری حسن صداقت کی ہو مظہر ساقی
مرا فن باعثِ توقیر قلم ہو جائے
No comments:
Post a Comment