وفورِ شوق میں اک بے کلی ہے
نظرمیں ہر گلی تیری گلی ہے
ترے قدموں کی برکت سے جہاں میں
دکھی انسانیت نے سانس لی ہے
اجالے بھی گدائی پر ہیں نازاں
عجب اک نور کی دھارا چلی ہے
کریمی کی تری تمثیل کیا ہو
معافی دشمنوں کو بھی ملی ہے
خزاں کا دور دورہ تھا چمن میں
بہارِ زندگی تجھ سے چلی ہے
سخاوت ، درگزر ، الفت ، اخوت
ترے سائے میں ساری خو پلی ہے
امیں ، صادق کہےدشمن بھی جس کو
تری ہی ذات وہ دودھو دھلی ہے
شبِ غم ہنس کے جو جینا سکھائے
تری شیوہ ، تری زندہ دلی ہے
چمک جائیں گنہگاروں کے چہرے
گلی شبیرؔ وہ ان کی گلی ہے
No comments:
Post a Comment