جل کے جب دل لگی راکھ ہو جاتی ہے
عاشقوں کی خوشی راکھ ہو جاتی ہے
ہجر کے شعر جس پر میں لکھ دیتا ہوں
میری وہ ڈائری راکھ ہو جاتی ہے
پتھروں کے مکانات جلتے نہیں
ہاں مگر جھوپڑی راکھ ہو جاتی ہے
عشق میں درد ہے درد میں ہے مزہ
بے مزہ زندگی راکھ ہو جاتی ہے
کوئی بھی چیز ٹکتی نہیں اُس کے پاس
ہر پرانی نئی راکھ ہو جاتی
جس میں اک دوسرے پر بھروسہ نہ ہو
ایسی ہر دوستی راکھ ہو جاتی ہے
چار دن جیب میں گر نہ پیسے رہیں
عشق کیا عاشقی راکھ ہو جاتی ہے
گل سے بلبل اگر بات کرنے لگے
دیکھ کر ہر کلی راکھ ہو جاتی ہے
اب تو جگنو بھی دعویٰ یہ کرنے لگے
ہم سے بھی تیرگی راکھ ہو جاتی ہے
صرف سگریٹ سے دل ہی جلتے نہیں
ان لبوں کی نمی راکھ ہو جاتی ہے
جس میں مل کے بھی دو لوگ ملتے نہیں
ایسی وابستگی راکھ ہو جاتی ہے
اک سہیلی کو اس کی اگر پھول دوں
دیکھ کر دوسری راکھ ہو جاتی ہے
شعريت جس میں آتی نہیں ہے نظر
فیض وہ شاعری راکھ ہو جاتی ہے
No comments:
Post a Comment