فن کار ہے تو اپنے ہنر کی بھی جانچ کر
دو اور دو کو چھ نہیں کرتا تو پانچ کر
ہیں تیرے کتنے کام کے بے کار کس قدر
دریاؤں کو کھنگال ستاروں کی جانچ کر
لے لے نہ سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں
سر میں سلگ رہی ہے جو ٹھنڈی وہ آنچ کر
سچ بولنے کی تاب نہیں ہے تو کم سے کم
اے عقل مند جھوٹ کو چمکا کے سانچ کر
کب تک زمیں مکاں زن و فرزند کاروبار
ہستی کا حل بھی ڈھونڈ کوئی سونچ سانچ کر
مٹی بھی تیری دیکھ کے اگلے گی سیم و زر
اپنے لہو سے چھوڑ اسے سینچ سانچ کر
ہیرے کو کون پوچھنے والا ہے اے عزیز
ہیرے کو چھیل چھال کے چمکا کے کانچ کر
No comments:
Post a Comment