آنکھوں میں ہے اب تک وہی زیبائشِ دنیا
رکھا نہ کہیں کا مجھے اے خواہشِ دنیا
اچھا ہے کہ جلتے ہو خود اپنی ہی تپش میں
تم تک ابھی پہنچی ہی نہیں آتشِ دنیا
وسعت میں ہمیشہ سے جداگانہ ہیں دونوں
دنیا میں نہیں دل میں ہے گنجائشِ دنیا
اے جذبہءپندار قدم بوس نہ ہونا
پیروں سے لپٹ جائے گی آلائشِ دنیا
چشم و لب و رخسار تو غارت گرِ جاں ہیں
جس دم وہ کھُلا ہم پہ کھُلی سازشِ دنیا
دنیا کو کیا ترک جب اس کیلئے ہم نے
کی ہم سےتب اس شخص نےفرمائشِ دنیا
No comments:
Post a Comment